WORLD NEWS



alt
امریکہ بھارت سمیت اہم اتحادیوں کو مسلح جاسوس طیاروں کی فروخت پر غور کر رہا ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق وال سٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون افغانستان میں امریکہ پر بوجھ ہلکا کرنے اور مستقبل میں لیبیا مہم جیسے تنازعات سے نمٹنے کیلئے نیٹو اتحادیوں کو مسلح ڈرون طیاروں سے لیس کرنا چاہتا ہے۔ بھارت جو ڈرون طیارے اسرائیل سے خریدنے کا منصوبہ رکھتا ہے امریکی ڈرون طیاروں کا مضبوط خریدار بن سکتا ہے۔ بھارت اپنے جاسوس طیاروں کی استعداد کار میں اضافے پر کام کر رہا ہے مگر بھارت کے پاس مسلح جاسوس طیاروں کی استعداد کار میں اضافے پر کام کر رہا ہے مگر بھارت کے پاس مسلح جاسوس طیارے نہیں ہیں جو بڑے پیمانے پر تباہی کے اسلحہ سے لیس ہوں۔ اوباما انتظامیہ نے اہم تجارتی رکن اٹلی اور ترقی کو مسلح ڈرون طیاروں کی ممکنہ فروخت سے متعلق پالیسی سازوں سے باضابطہ مشاورت شروع کر دی ہے جبکہ خلیج فارس کے دیگر امریکی اتحادیوں کی طرف سے بھی ان کو مسلح ڈرون طیاروں کی فروخت کیلئے بھی کیا جا رہا ہے۔ امریکہ کئی اتحادی ملکوں کو غیر مسلح جاسوس یارے فروخت کر چکا ہے مگر مسلح ڈرون طیارے صرف برطانیہ کو فروخت کئے ہیں۔ اسلحہ کی ڈیل کیلئے انتظامیہ کو کانگریس کمیٹی کی ضرورت ہوتی ہے۔




بھارت کے ساتھ ایٹمی معاہدے پر قائم ہیں، امریکہ


alt
امریکہ نے کہا کہ بھارت کے ساتھ سول نیوکلیئر معاہدے پر مکمل یقین رکھتے ہیں اور اس سلسلے میں مشکلات کو حل کرنے کیلئے بھارت کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان وکٹوریا نیو لینڈ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ رواں ہفتے نائب وزیر خارجہ ولیم مرنز کے دورہ نئی دہلی کے دوران ان کی بھارتی ہم منصب کے ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان نیوکلیئر ڈیل کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔ ترجمان نے کہا کہ امریکی کمپنیوں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے دونوں ملک ملکر کوششیں کر رہے ہیں۔ دوہزار آٹھ میں بھارت اور امریکہ کے درمیان جوہری شراکت داری کے معاہدے پر بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ اور اس وقت کے امریکی صدر جارج بش نے دستخط کئے تھے۔ تاہم امریکی کمپنیوں کو بھارت کے ساتھ جوہری تجارت کی راہ میں رکاوٹیں حائل ہیں۔


امریکہ کے سیکرٹری دفاع لیون پنیٹا نے افغانستان میں کامیابی کو پاکستان سے تعلقات کی بحالی سے مشروط قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ افغانستان میں جنگ نہیں جیت سکتا جب تک کہ وہ پاکستان سے بہتر تعلقات کو نہیں جیتے گا۔لیون پنیٹا کا کہنا تھا کہ تعلقات کی بحالی افغانستان میں لانگ ٹرم ترقی کے لئے ضروری ہے اور اگر انہیں اپنی کوششوں کو عملی جامہ پہنانا ہے تو یہ پاکستان کے ساتھ کے سوا ممکن نہیں، اگر اس خطے میں امن مقصود ہے تو وہ نہ صرف افغانستان میں بلکہ پاکستان میں استحکام پر بھی منحصر ہے۔ سیکرٹری دفاع کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ماضی میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے، اس وقت ہمیں فاٹا اور قبائلی علاقوں میں چند آپریشن مکمل کرنے چند مشکلات کا سامنا ہے جو دونوں ممالک کے مابین 2 مئی اسامہ کی ہلاکت کے بعد سے پیدا ہونے والے خلا کا نتیجہ ہے۔ جس نے نومبر 26 کو 24 پاکستانی سپاہیوں کی شہادت تک کے عرصے میں دونوں ممالک کے تعلقات کو کافی گزند پہنچائی ہے۔ پنیٹا کا کہنا تھا کہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ محض 1 نکتے یعنی دہشتگردی کے خلاف جنگ کی بنیاد پر دونوں ممالک اپنے تعلقات کو بحال کریں گے اور سپلائی روٹس بحال ہونگے۔


 ایڈیٹر نوٹ۔ یہ طویل آرٹیکل  امریکی اخبار دی نیو یارکر میں چھپا، جس میں پہلی دفعہ اس اپریشن کی خفیہ معلومات کو  تفصیل سے پیش کیا گیا ہے۔ پاکستان اور دینا بھیر میں پھیلے اردو قارئین کی دلچپسی اور اس اپریشن کی پاکستان کے لیے اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کا اردو میں ترجمہ پیش کیا جارہا ہے۔  اسامہ بن لادن کے قتل کی اس امر یکی کہانی کی سچائی کے بارے میںکچھ کہنا تو ممکن نہیںمگر جس طرح واقعات فلمی کہانی کے انداز میں پیش کئے گئے  ہیں، ان پرمن و عن یقین کرنا کافی مشکل ہوگا۔ پھر بھی اس کہانی سےامریکی ذہن کو سمجھا جاسکتا ہے۔


تحریر: نکولس سچمڈل
اتوار کی صبح یکم مئی کو وائٹ ہاوس کے افسران نے اپنی تمام دوسری مصروفیات کینسل کر دیں اور اپنے لئے سینڈوچ منگوا لیے اور سیچیویشن روم کو وار روم میں بدل دیا۔ گیارہ بجے اوبامہ اور اس کے اہم ایڈوائرزایک بڑے کانفرنس روم میں اکھٹے ہونا شروع ہو گئے تھے۔ ایک ویڈیو لنک سی ائی اے اور افغانستان کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ اس کے علاوہ دو اور بھی کمانڈ سینٹرز تھے، ایک پینٹاگون اور دوسرا اسلام آباد میں واقع امریکی ایمبیسی میں تھا۔بر ئگیڈئر جنرل مارشل ویب نے اس ہال کے ایک قریبی کمرے میں ایک لیپ ٹاپ کھولا ۔ اس نے مختلف ونڈوز کھول دیں جن کا براہ راست رابطہ وائٹ ہاوس کے علاوہ دیگر کمانڈ سینٹرز کے ساتھ بھی تھا۔ اس وقت اس پورے آپریشن کو براہ راست دیکھا جا رہا تھا اور اس پورے اپریشن کی لائیو فوٹیج لینے کے لیے ایک بغیر پائلٹ کے ڈرون  کو استمال کیا جا رہا تھا جو اس وقت ایبٹ آباد پر پندرہ ہزار فیٹ بلندی پر اڑ رہا تھا۔ اس سارے منصوبے کو خفیہ رکھنے کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ اس سارے اپریشن کے دوران مزید جنگی طیارے یا بمبرز استمال نہیں کیے جائے گئے ۔
صدر اوبامہ گولف کھلینے کے بعد دو بجے وائٹ ہاوس واپس آئے۔ جلال آباد سے بلیک ہاکس تیس منٹس کے بعد اپنے اڈے سے اڑے۔ چار بجے سے پہلے لیون پینٹا نے سچیوشن روم میں بیھٹے ہوئے اوبامہ سمیت دیگر حکام کو آ کر بتایا کہ ہیلی کاپٹر ایبٹ آباد کے قریب پہنچنے والے تھے۔
یہ سن کر صدر اوبامہ کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ وہ یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے تھے۔یہ کہ کر اوبامہ چل پڑے اور ساتھ والے چھوٹے سے کمرے میں بیٹھے بریگئڈیڑ جنرل ویب کے ساتھ آ کر بیٹھ گئے جو وہاں لیپ ٹاپ لے کے بیٹھے تھے۔نائب صدر جوزف بائڈن، سکریٹری دفاع رابرٹس گیٹس، اور وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن بھی اوبامہ کے پیچھے پیچھے آکر کمرے میں بیٹھ گئے۔ ان کی دیکھا دیکھی دوسرے لوگ جو بھی وہاں اس چھوٹے سے کمرے میں سما سکتے تھے وہ بھی وہاں آ گئے تاکہ اس اپریشن کو براہ راست اپنی انکھوں سے دیکھ سکیں۔
اس چھوٹے سے کمرے میں ایک ایل سی ڈی سکریں پر یہ سارا اپریشن براہ راست دیکھایا جا رہا تھا۔اسی وقت ان سب کے نطروں کے سامنے بلیک ہاکس نمودار ہوا اور سب کو یو ں لگا کہ پائلٹ مشکل میں تھا۔ جب کہ پائلٹ کو محسوس ہوا کہ ہیلی کاپٹر اس کے کنٹرول سے نکل رہا تھا۔ دوسرے بلیک ہاکس میں موجود سیلز یہ سب کچھ اپنی انکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ عملے نے فورا ایک کال چینوکس کو کی۔
ابھی تک کوئی امریکن اس گھر کے اندر نہیں گیا تھا جہاں ان کے بقول اسامہ بن لادن چھپا ہوا تھا۔واشنگٹن میں بیٹھے افیشلز نے اس فوٹیج کو دیکھا اور اب وہ اس انتطار میں تھے کہ کب وہ کوئی فوجی کمیونکیشن سنتے ہیں۔ صدر اوبامہ کے ایک اہم ایڈوائز نے اس تمام کاروائی کو ایک بڑی فلم کا کلائمکس قرار دیا۔ چند لموں کے بعد بارہ سیلز نے ریڈیو پر یہ پیغام بھیجا کہ وہ پلان کے مطابق حملہ کرنے جا رہے تھے۔ انہوں نے پچھلے نو سالوں میں اتنے سارے اپریشن کیے تھے کہ بمشکل ہو کوئی چیز انہیں حیران کر سکتی تھی اور وہ ہر قسمی انہونی کے لیے تیار تھے۔ زمین پر اترنے کے بعد مارک اور ٹیم کے دوسے ممبران نے پہلے والے بلیک ہاکس کے دروازے سے نکلنا شروع کر دیا۔ مٹی گاڑا ان کے بوٹوں سے چپکنا شروع ہو گیا جونہی انہوں نے اس گھر کی طرف جانا شروع کیا جہاں اسامہ موجود تھا۔ ایک زوردار دھماکے کے ساتھ انہوں نے اس گھر سے محلقہ جانوروں کے ایک باڑے کے دروازے کو اڑایا اور اندر داخل ہو گئے۔ نو سلیز اندر داخل ہوئے اور ان کے سامنے گھر کا صحن تھا اور ان کی کمر گھر کے بیرونی دروازے کی طرف تھی۔ ان کی رائفلز ان کی کندھوں سے لٹک رہی تھیں۔
مارک نے دوسری ٹیم کے ساتھ ریڈیو پر رابط قائم کیا۔ ڈرائیو وے کے اختتام پر امریکی کمانڈوز نے ایک اور بند دروازے کو اڑایا اورگھر کے اس حصے میں داخل ہو گئے تھا جہاں کویتی ابو احمد، بن لادن کا کورئیر اپنی بیوی اور چار بچوں کے ساتھ رہ رہا تھا۔ گیسٹ ہاوس کو کلیر کرنے کے لیے باقی نو سیلز نے دوسرے گیٹ کو اڑایا اور صحن میں داخل ہو گئے جو مین گھر کے مدمقابل تھا۔ جونہی وہ داخل ہوئے انہون نے کویتی کو دوڑ کر اپنی بیوی اور بچوں کے کمرے کی طرف بھاگ کر جاتے دیکھا۔ کویتی نے ایک سیفد شلوار قیمض پہنی ہوئی تھی اور اس نے ہاتھ میں گن پکڑی ہو ئی تھی۔ وہ باہر نکل رہا تھا جب اس کمانڈوز نے گولی مار کر وہیں ڈھیر کر دیا۔ دوسرے نو سیلز جن میں مارک بھی شامل تھا، نے اندر کا راستہ بنانے کے لیے تیں ٹیموں کی شکل اختیار کر لی۔امریکن کمانڈوز کو یوں لگا کہ اندر اور بھی لوگ مسلح ہو سکتے تھے۔ ان کے خیال میں ابھی گھر کے اندر کویتی کا تائیس سالہ بھائی ابرار، بن لادن کے بیٹے حمزہ اور خالد اور بن لادن خود موجود تھے۔
اسی وقت ابرار  رائفل اٹھا کر باہر آیا۔ اسے بھی سینے میں گولی ماری گئی۔ اس کی بیوی بشری جس کے ہاتھ میں کوئی بندوق نہ تھی وہ اپنے خاوند کے ساتھ ماری گئی۔ جب گھر کے اندر یہ اپریشن جاری تھا، گھر کے باہر احمد ایک طرح کا پہرہ دیتے ہوئے یہ تاثر دے رہا تھا جیسے وہ کوئی پاکستانی پولیس کا سادہ کپڑوں میں ملبوس افسر ہو۔ اس نے شلوار قیمض کے ساتھ ایک جیکٹ پہنی ہوئی تھی۔ احمد، کتا کائرو اور چار کمانڈوز گھر کے باہر کا راستہ روکنے پر مامور تھے جب کہ باقی چھ سیلز جنہیں پہلے پلان کے تحت چھت پر کودنا تھا، اب انہوں نے اندر داخل ہونا تھا۔
وہ ٹیم جو گھر کے باہر پہرہ دے رہی تھی اس کے لیے پہلے پندرہ منٹس تک تو کوئی خاص بات نہ ہوئی۔ ہمسائیوں نے یقیناً نچلی پرواز کرتے ہیلی کاپٹروں کی آوازیں سنی ہوں گی، ایک ہیلی کاپٹر کے کریشں کی آواز بھی یقیناًسنی گئی ہو گی اور اس کے علاوہ وقفے وقفے سے ہونے والے دھماکوں اور گن فائر کی آوازیں بھی سنی گئی ہوں گی۔ تاہم پھر بھی کوئی باہر نہیں نکلا۔
ایبٹ آباد کے ایک شہری نے ٹوئٹر پر ایک پوسٹ کیا کہ رات کے ایک بجے اس وقت ہمارے شہر پر ہیلی کاپٹر کی آوازیں آ رہیں تھیں جو کہ بڑی عجیب سی بات ہے کہ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ آخر چند تجسس سے بھرپور پاکستانی باہر نکلے اور پوچھنے لگے کہ کیا ہو رہا تھا۔
احمد نے انہیں پشتو میں انہیں کہا کہ واپس چلے جاؤ۔ اس وقت سکیورٹی آپریشن ہو رہا تھا۔ یہ سن کر وہ لوگ واپس چلے گئے۔ ان میں سے کسی کو بھی یہ شک نہ گزرا کہ ان کا سامنا ابھی امریکیوں سے ہوا تھا۔ بعد میں ایک شخص نے اخباری رپورٹروں کو بتایا کہ اس نے فوجیوں کو ایک ہیلی کاپٹر سے نکلتے دیکھا اور گھر کے اندر چلے گئے۔ ان میں سے کچھ نے ان سے کہا کہ وہ اپنی لائٹس بجھا دیں اور گھر کے اندر ہی رہیں۔
اسی اثناء میں جمیز سکواڈرن کمانڈر نے ایک دیوار میں سراغ کر لیا تھا اور پھر ایک اور دیوار توڑی۔تاہم اگلے بیس سے پچیس منٹ تک، کسی کو کچھ علم نہ تھا کہ اندر کیا ہورہا تھا کیونکہ اب تک یہ سارا آپر یشن وزارت دفاع، انیٹلیجنس اور انتطامیہ کے درجنوں حکام براہ راست دیکھ رہے تھے اور ڈرون کے زریعے اس کی فوٹیج لی جارہی تھی۔ کمانڈوز نے وہ ہملیٹ نہیں پہنے ہوئے تھے جن پر کیمرے فٹ ہوتے ہیں۔ کسی کے پاس اس گھر کا فلور پلان بھی موجود نہ تھا اور دوسرے انہیں یہ احساس تھا کہ وہ اس شخص کے قریب پہنچ گئے تھے جو امریکی تاریخ میں سب سے مہنگا ٹارگٹ ثابت ہوا تھا۔
اتنی دیر میں ابرار کے بچوں نے بھاگ کر کور لے لیا جب کہ کمانڈوز نے بڑے گھر کے پہلے فلور کا ایک ایک کمرہ کلیر کرنا شروع کر دیا۔ امریکیوں کا خیال تھا کہ ممکن تھا کہ یہ گھر بوبی ٹریپ ہو لیکن گھر میں بچوں کی موجودگی سے یہ خیال غلط ثابت ہو رہا تھا۔ہو سکتا ہے کہ بن لادن نے نو ستمبر کے حملوں کے پہلے یا دوسرے سال یہ سوچا ہو کہ اگلی رات اسے امریکن مارنے کے لیے آنے والے تھے۔ لیکن اس کے بعد کے برسوں تک اس نے یہ نہیں سوچا تھا کہ کسی رات امریکن اسے مارنے کے لیے یوں بھی آ سکتے تھے۔ اس لیے وہ اب ایک پرسکون زندگی بسر کر رہا تھا۔
تاہم اس کے باوجود امریکی کمانڈوز نے سکیورٹی کی احتیاط پوری کی گئی تھی۔اب سلیز نے سیڑھیوں کی طرف جانا شروع کر دیا تھا۔ ابھی وہ راستے میں ہی تھے کہ انہوں نے بن لادن کے تائیس سالہ بیٹے خالد کو دیکھا۔ اس نے وائٹ ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی اور اس کے ہاتھ میں بھی  رائفل تھی۔ اس نے سیدھا امریکی کمانڈوز پر فائر کیا۔ ( اگرچہ ایک انٹی کاونٹر ٹیررازم آفیشل کا کہنا تھا کہ خالد غیر مسلح تھا لیکن پھر بھی اسے ایک بڑا خطرہ سمجھنا ایک فطر ی عمل تھا)۔دو کمانڈوز نے خالد پر فائزکیے اور اسے وہیں مار ڈالا۔ کمانڈوز کو بتایا گیا تھا کہ گھر کے اندر پانچ مرد تھے۔ ان میں سے تین پہلے ہی مارے جا چکے تھے اور چوتھا اسامہ کا بیٹا حمزہ وہاں موجود نہ تھا۔
پانچواں اور آخری مرد اسامہ بن لادن ہی بچ گیا تھا!
ان کمانڈوز کو اسامہ کے ملنے کی صورت میں جو کوڈ ورڈ دیا گیا تھا وہ  گرینو تھا۔ تین کمانڈوز خالد کی لاش کے قریب سے گزرے اور انہوں نے ایک اور دھاتی دروازے کو دھماکے سے اڑایا۔ جب ایک کمانڈو آخری سیڑھی پر تھا تو اس نے دس فٹ کے فاصلے پر تاریکی میں دیکھنے والی عینکوں کی مدد سے ایک لمبے شخص جس کی اچھی خاصی لمبی داڑھی تھی کوایک بیڈ روم کے دروازے سے باہر جھانکتے دیکھا۔ اس نے فائر کیا جو مس ہو گیا۔ امریکی کمانڈوز بڑی تیزی سے بیڈروم کی طرف گئے۔ پہلے کمانڈو نے اسے کھولا۔ بن لادن کی دوبیویاں اس کے سامنے ڈھال بنا کر کھڑی ہوئی تھیں۔ اسامہ کی پانچویں بیوی ایمل عربی زبان میں چلا رہی تھی۔ اس کے انداز سے یوں لگا جیسے وہ ان پر حملہ کر نے والی تھی۔ ایک کمانڈو نے اپنی نطر ایک لمے کے لیے نیچے کی اور اس کی ٹانگ پر فائر کر دیا۔ ان کمانڈوز کو یہ بھی خطرہ تھا کہ کہیں ان دونوں عورتوں نے خودکش جیکٹس نہ پہنی ہوں۔ تاہم ایک کمانڈو نے بھاگ کر ان دونوں کو اپنے بازوں میں پکڑا اور انہیں ایک طرف کر دیا۔ اگر ان میں سے ایک بھی عورت نے اپنے اپ کو بم سے اڑا لیا ہوتا تو اس کمانڈو کی موت یقینی تھی۔
اتنی دیر میں دوسرا کمانڈو اندر داخل ہوا اور اس نے انفرائڈ لیزر ایم فور گن بن لادن کے سینے پر رکھ دی۔ القاعدہ کے چیف نے شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی اور اس کے سر پر نماز پڑھنے والی ایک ٹوپی تھی۔
اسامہ بن لادن غیر مسلح تھا۔ایک اپریشن افسر نے اس صحافی کو بعد میں بتایا تھا کہ یہ سامنے کی بات تھی کہ اسامہ کو زندہ پکڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ کوئی بھی اس طرح کے شخص کو اپنا قیدی بنانا نہیں چاہتا تھا۔ لہذا کمانڈو کے لیے یہ فیصلہ کرنا ایک سکینڈ کا کام تھا کہ اس نے کیا کرنا تھا۔ تاہم وائٹ ہاوس کی انتظامیہ نے اس رپورٹر کو بتایا کہ اگر اسامہ فورا سرنڈر کر دیتا تو یقیناًوہ زندہ گرفتار کر لیا جاتا۔
یوں گیارہ ستمبر 2001 حملوں کے نوسال، سات ماہ اور بیس دنوں بعد ایک امریکی کمانڈو اس لمے اسامہ بن لادن کے سینے پر گولی چلانے والا تھا۔ پہلا راونڈ چلا جس نے اسامہ کے سینے کو چھلنی کر دیا۔ جونہی وہ نیچے گرا، کمانڈو نے دوسرا فائر اس کے سر پر کیا جو اس کی بائیں آنکھ کے قریب جا کر لگا۔
اپنے ریڈیو پر اس کمانڈو نے چیخ کر کہا کہ ’’ فار گاڈ اینڈ کنٹری۔۔ ایک لحمے کا وقفہ دے کر وہ چلایا ’’دشمن ایکشن میں مارا گیا تھا‘‘۔ اس ایکشن سے ہزاروں میل دور وائٹ ہاوس میں بیٹھے صدر اوبامہ نے بھی یہ اعلان سنا ۔ اپنے ہونٹون پر زبان پھیری اور بڑی سنجیدگی سے بغیر کسی کو مخاطب ہو کہ بولے۔۔۔ ہم نے کر دکھایا۔

اتنی دیر میں جو کمانڈو اسامہ کی دو بیویوں کو اپنے قابو میں کیے ہوئے تھا اور اس نے ان دونوں کو ہتھکڑیاں پہنائیں اور انہیں سیڑھیاں اتار کے نیچے لے آیا۔ جب کے اس کے دو اور ساتھی کمانڈو بھاگ کر اوپر گئے اور انہوں نے نائلوں کے ایک باڈی بیگ اٹھایا ہو ا تھا۔ انہوں نے اس بیگ کو کھولا اور دونوں اسامہ کی لاش کے دائیں اور بائیں بیٹھ گئے اور اسے بیگ کے اندر ڈال دیا۔ اب تک اس ٹیم کو اپریشن کرتے اٹھارہ منٹس ہو چکے تھے۔
اگلے بیس منٹوں میں انہوں نے آپریشن کا رخ وہاں موجود انٹییلجنس اکھٹی کرنے کی طرف کر دیا۔ انہوں نے وہاں سے پلاسٹک بیگز میں فیلش ڈرایؤز، سی ڈیز، ڈی وی ڈیز اور کمپیوٹر ہارڈ وئر اکھٹا کرنا شروع کر دیا جو انہیں اس کمرے سے ملیں جسے اسامہ اپنے میڈیا اسٹوڈیو کے طور پر استمال کر رہا تھا۔
اگلے چند ہفتوں میں سی آئی آئے کی ایک ٹاسک فورس نے ان تمام فائلوں کا جائزہ لیا جس سے پتہ چلا کہ امریکیوں کے وہم و گمان سے زیادہ اسامہ بن لادن القاعدہ کے تمام آپریشن میں شامل رہا تھا۔ اسامہ نے صدر اوبامہ اور جنرل پیٹریس کو بھی گیارہ ستمبر کے حملوں کی یاد میں قتل کرنے کا پروگرام بنایا ہو ا تھا۔ اس کے علاوہ امریکہ میں ٹرینوں پر حملہ کی منصوبہ بندی بھی کر رہا تھا۔
اسامہ کے میڈیا روم کی تلاشی کے دوران کمانڈوز کو  وہ قیمتی لباس بھی ملے جو وہ اکثر ویڈیو پیغامات ریکارڑ کراتے وقت پہنتا تھا۔ اس میڈیا کمرے کے باہر امریکی کمانڈوز نے عورتوں اور بچوں کو ہتھکڑیاں لگا کر اس دیوار کے ساتھ بیٹھایا ہو ا تھا جس کے سامنے دوسری طرف بلیک ہاکس ہیلی کاپڑ کھڑا ہو ا تھا۔ تمام بچوں کی عمریں دس سال سے کم تھیں۔
ان کمانڈوز کے ساتھ موجود ایک نے ان سے عربی میں گفتگو کرنی شروع کر دی ۔ ان سب کو اس بات کے علاوہ کوئی علم نہ تھا کہ اوپر والی منزل پر ایک ’’ بوڑھا آدمی ‘‘ رہتا تھا۔ کسی بھی عورت نے ان کو اس بات کو کنفرم نہیں کیا کہ مرجانے والا اسامہ بن لادن تھا اگرچہ ان میں سے ایک عورت اسے شیخ کہ رہی تھی۔
جب آخرکار ریسکیو چینوکس جہاز وہاں پہنچ گئے، ایک میڈیکل ٹیم نے دو بون میرو سمپل لیے۔ ایک بون میرو سمپلز بلیک ہاکس کے اندر لے جایا گیا۔ جب کہ دوسرے کو چینوکس کے اندر بھیج دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی اسامہ کی لاش بھی اس کے اندر پہنچا دی گئی۔ اس کے بعد اگلا مرحلہ اس بلیک ہاکس کو تباہ کرنا تھا جس نے کریش لینڈنگ کی تھی۔ ایک پائلٹ نے ہاتھ میں ایک کلہاڑا لیا جو ایسے معوقعوں کے لیے ساتھ رکھا جاتا تھا، اور اس کی مدد سے ہیلی کاپٹر کے کاک پٹ اور اس کے اندر کے کمنیونکیشن سسٹم کو توڑنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد ایک اور ٹیم نے اسے مکمل تباہ کرنے کے لیے کنٹرول سنبھال لیا۔ انہوں نے سسٹم، کمیوینکشن گیئر، انجن اور روٹار کے قریب دھماکہ خیز مواد رکھ دیا۔
اسپشل اپریشن کے ایک افسر نے کہا کہ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود بھی تم یہ حقیقت ختم نہیں کر سکو گے کہ یہ ایک ہیلی کاپٹر تھا۔ تاہم اس کا مقصد یہ تھا کہ اسے چلنے کے قابل بھی نہ چھوڑا جائے۔ کمانڈوز نے اس ہیلی کاپڑ کے نیچے مزید دھماکہ خیز مواد بھی رکھ دیا۔ کچھ دیر کے بعد بلیک ہاکس شعلوں میں جل رہا تھا اور باقی لوگ چینوکس میں بیٹھ چکے تھے۔
عورتیں اور بچے جنہیں امریکن جان بوجھ کر پاکستانی حکام کے لیے چھوڑ کر جا رہے تھے تاکہ وہ ان سے تیفتش کر سکیں، اس وقت سب سے زیادہ حیران اور گبھرائے ہو ئے تھے کہ انہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کچھ کیا تھا۔ ان سب نے امریکی کمانڈوز کو ہیلی کاپٹروں میں سوار ہو کر اڑتے دیکھا۔
اسامہ کی بیوی ایمل نے اپنا رونا پیٹنا جاری رکھے ہو ئے تھا۔
+++++++++++
وائٹ ہاوس کے سچیویشن روم میں صدر اوبامہ نے کہا کہ وہ اس وقت تک خوش نہیں ہو ں گے جب تک سارے کمانڈوز خیر خیریت سے پاکستانی حدود سے نکل نہیں جاتے۔ اسامہ کے گھر میں 38 منٹس گزارنے کے بعد امریکی کمانڈوز کوافغانستان پہنچنے کے لیے ابھی ایک طویل سفر طے کر نا تھا۔ بلیک ہاکس کی گیس کم ہو رہی تھی اور اسے پاکستانی سرحد کے اندر افغان باڈرر کے قریب چینوکس طیارے سے ری فیولنگ کرانی تھی۔ اس سارے عمل میں مذید پچیس منٹ لگ گئے۔
اس مرحلے پر نائب صدر جوزف بائیڈن نے مائک مولن کی طرف دیکھا اور بولے کہ
’’ آج رات ہم سب کو مل کرچرچ جانا چاہیے‘‘
+++++++++
اسامہ کو مارنے کے بعد وہ ہیلی کاپٹرز دوبارہ جلال آباد ائر فیلڈ پر تین بجے پہنچ گئے تھے۔ سی ائی اے کے اسٹیشن کمانڈر نے ان کا اسقبال کیا۔ دو کمانڈوز نے اسامہ کے باڈی بیگ کو کھولا تاکہ سی ائی اے کے افسران اپنی انکھوں سے اسامہ کی لاش کو دیکھ سکیں۔ پہلے اسامہ کے چہرے کے فوٹو لیے گئے اور پھر اس کے پورے جسم کے۔ بن لادن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس کا قد چھ فٹ چار انچ تھا۔ حیرانی کی بات تھی کی کسی کے پاس اس کی لاش کا قد ماپنے کے لیے کوئی پیمانہ یا فیتا نہ تھا۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ ایک کمانڈو جس کا قد چھ فٹ تھا اسے اسامہ کی لاش کے ساتھ لٹایا گیا اور اس سے پتہ چلا کہ لاش ابھی بھی چار انچ زیادہ تھی۔
کچھ منٹس کے بعد سی ائی اے کا اسٹیشن چیف کی آواز ٹیلی کانفرنس پر سچیویشن روم میں گونجی اور اس نے بتایا کہ بن لادن کی لاش بیگ میں بند تھی۔
لاش کو بگرام بھیجا جانا تھا۔
+++++++++
کمانڈوز نے طے کیا ہو ا تھا کہ اسامہ کی لاش کو سمندر برد کیا جائے گا تاکہ اس کی متھ یا روایت کا یوں اچانک خاتمہ ہو کہ بڑے عرصے تک لوگو ں کو یقین ہی نہ آئے کہ کیا ہو ا تھا۔ کمانڈوز نے اس سے پہلے 2009 میں ایک اس طرح کا کامیاب اپریشن کیا ہوا تھا جب صومالیہ میں صالح علی صالح نبھان ، جو کہ شمالی افریقہ کا القاعدہ کا ٹاپ لیڈر تھا اس طرح ایک اپریشن میں مارا گیا تھا۔ اس کی لاش بھی بحر ہند میں پھینک دی گئی تھی۔
تاہم اسامہ کی لاش کے بارے میں یہ فیصلہ کرنے سے پہلے جان بریمن جو ریاض میں سی ائی اے چیف رہ چکا تھا، نے اپنے ایک سابق سعودی انٹیلجنس ہم عصر کو فون کیا ۔ جان بریمن نے سعودی افسر کو بتایا کہ ایبٹ آباد میں کیا ہوا تھا اور انکشاف کیا کہ اس کی لاش کو اب سمندر برد کیا جا رہا تھا۔ جان بریمن کو علم تھا کہ بن لادن کے رشتہ دار ابھی بھی سعودی عرب میں ایک اہم فیملی کے طور پر جانے جاتے تھے اور اسامہ کبھی سعودی شہری بھی تھا۔ جان بریمن نے پوچھا کہ آیا سعودی حکومت کو اسامہ کی لاش لینے میں کوئی دلچسی ہو سکتی تھی۔ اس پر اس سعود ی افسر نے جواب دیا کہ آپ لوگوں کا اسامہ کی لاش کو سمندر برد کرنا زیادہ مناسب خیال تھا۔
صبح کے وقت اسامہ کی لاش کو ایک اور طیارے میں ڈالا گیا تاکہ وہ عربئین سمندر میں موجود امریکی بحری جہاز پر لے جائے جو پاکستانی ساحل سے فاصلے پر لنگر انداز تھا۔ امریکن ایک دفعہ پھر بغیر اجازت پاکستانی حدود میں داخل ہونے والے تھے۔
کچھ امریکیوں کا خیال تھا کہ اسامہ بن لادن اپریشن میں ہونے والی ذلت کے بعد پاکستانی فوجی حکام اس طیارے کو پاکستانی حدود میں روک سکتے تھے۔ تاہم وہ طیارہ بغیر کسی حادثے کے امریکی بحر ی بیڑے پر جا کر اتر گیا۔ بن لادن کی لاش کو نکال کر اسے دھویا گیا۔ اسے ایک کفن میں لیپٹا گیا۔ اس لاش کا وزن کیا گیا اور پھر اسے ایک اور بیگ میں ڈٖال دیا گیا۔ بعد میں جان بریمن نے اخباری رپورٹروں کو بتایا کہ یہ سارا مرحلہ مسلمانوں کی روایت کو سامنے رکھ کر پورا کیا گیا۔ اس کے بعد اس لاش کو جہازوں کے لیے مخصوص ہینگر کے زریعے سمندر میں اچھال دیا گیا۔
+++++++++++
اسامہ کو مارنے کے لیے پاکستان کے اندر ہونے والے اس آپریشن کے بعد امریکی لیڈر شپ نے پاکستان میں رابطے شروع کر دیے تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والے ممکنہ تعلقات کے نقصان کو کم سے کم کیا جا سکے۔ پاکستانی فوج نے زیادہ ردعمل کا مظاہرہ کیا جب انہوں نے پانچ پاکستانیوں کو گرفتار کر لیا جن پر الزام تھا کہ انہوں نے سئی ائی اے کی مدد کی تھی۔ ایک فزیشن کو بھی گرفتار کیا گیا کہ اس نے ایبٹ آباد میں حفاظتی ٹیکوں کی مہم شروع کرائی تھی۔ امریکن حکام یہ تو کہ چکے ہیں کہ یقیناًپاکستان فوجی حکام اسامہ کو اپنا پورا تعاون فراہم کر رہے تھے لیکن ان کے پاس اس کا کوئی ثبوت نہ تھا۔ اسامہ کو مارنے کا یہ فائدہ ہو ا کہ اوبامہ کو افغانستان سے مرحلہ وار امریکی فوجی واپس بلانے کا موقع مل گیا اور اس حملے کے سات ہفتوں کے بعد صدر اوبامہ نے واپسی کا ٹائم ٹیبل دے دیا۔ اب فوجی اور انٹیلنجس حلقوں میں یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ کیا القاعدہ کے دہشت گرد اس قابل ہیں کہ مستقبل میں اس طرح کا آپریشن پاکستان کے اندر کسی القاعدہ کے لیڈر کو مارنے کے لیے کیا جانا چاہیے تھا؟
ایک امریکی افسر نے بتایا کہ اب ایک روایت پڑ گئی ہے کہ یکطرفہ حملہ کیا جا سکتا تھا اگر اس ٹارگٹ کے بارے میں معلومات پختہ ہوں۔
+++++++++++
اس کامیاب آپریشن کے بعد ان امریکی کمانڈوز کو واپس امریکہ بھیج دیا گیا جہاں صدر اوبامہ ان سے ملنا چاہتے تھے۔ جب اوبامہ کمانڈوز سے ملنے فورٹ کیپبیل پہنچے تو سب سے پہلے انہوں نے اس ٹیم کے سربراہ کو قد ناپنے کے لیے فیتا یا پیمانہ پیش کیا ۔ اوبامہ نے یہ بھی پوچھا کہ انہیں یہ بتایا جائے کہ آحمد نے اپریشن کے وقت ہمسائیوں کو اس گھر کی طرف آنے سے کیسے دور رکھا تھا۔ اچانک اوبامہ کو یاد آیا کہ اس آپریشن میں ایک کتا کائرو بھی تو ان کے ساتھ تھا۔ اوبامہ کو بتایا گیا کہ وہ کتا اس وقت ساتھ والے کمرے میں موجود تھا۔ اوبامہ نے کمرے میں جا کر کتے کو بھی پیار کیا اور پھر ایک ایک کمانڈوز کے ساتھ اپنا فوٹو بھی بنوایا۔ کمانڈوز نے اوبامہ کو وہ امریکی جھنڈا بھی پیش کیا جو وہ آپریشن کے دوران اپنے ریسکیو چینوکس ہیلی کاپڑز پر لگا کر گئے تھے۔
صدر اوبامہ نے خاصا وقت ان کمانڈوز کے ساتھ اس آپریشن کی مختلف باتیں پوچھنے میں لگایا۔ حیرانی کی بات یہ تھی کہ صدر اوبامہ نے امریکی تاریخ کے سب سے اہم آپریشن کی ایک ایک بات پوچھی لیکن نہ اوبامہ نے پوچھا اور نہ ہی کمانڈوز نے انہیں بتایا کہ ’’ اسامہ کو گولی کس کمانڈو نے ماری تھی۔‘‘!!!

alt
امریکی فوج کے سربراہ چیئرمین جوائنٹ چیف اسٹافجنرل مارٹن ڈیمپسی نے کہا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوج نے اپنے اہداف حاصل کرلیے ہیں۔انھوں نے کہا کہ امریکا افغان جنگ میں اتحادیوں سے ڈومور کے مطالبے پر غور کررہا ہے،واشنگٹن میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دو ماہ قبل ہی ایڈمرل مائیک مولن سے فوج کی کمان لینے والے فوجی سربراہ نے کہا کہ پاکستان میں دہشتگردوں کے ٹھکانے موجود ہیں،ان ٹھکانوں کو ختم کرنا ہوگا۔انھوں نے کہا کہ پاکستان کا افغانستان میں اثرورسوخ ختم کرنا ہوگا


 یہ تصویرایران کے سرکاری ٹیلویژن کی ہے جہاں  بغیر پائلٹ کے پرواز کرنےوالے امریکی سٹیلتھ ڈرون طیارے کو دکھایاگیا ہے۔ اس امریکی طیارے کو ایران نے صحیح سلامت اتار لیا ہے۔
   اس فوٹیج  کو دیکھ کر پوری دنیا سمیت امریکہ بھی حیران رہ گیا ہے کیونکہ یہ طیارے بلکل سلامت ہے۔ اس سے قبل یہ کہا جا رہا تھا کہ امریکہ کا جدید ترین ڈرون طیارہ، جو ایرانی ایٹمی تنصیبات کی جاسوسی  کرنے گیا تھا، اسے ایران  نے مار گرایا ہے مگر اب ایران انے انکشاف کیا ہے کہ اس کی فوج کےا نجینئرز نے کمپیوٹرز کی مدد سے امریکی ڈرون طیارے کے کمپیوٹر نظام پر قبضہ کرلیا اور پھر اس کا پرواز کنٹرول امریکہ سے چھین لیا، اس طرح وہ طیارے کو بحفاظت ایران میں اتارنے میں کامیاب ہو گئے۔ انتہائی شرمناک بات یہ ہے کہ رواں سال مئی میں امریکہ نے اسی طرح کے ایک ڈرون طیارے کو پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن کی لائیو فٹیج تیار کرنےکے لیے استعمال کیا گیا تھا، پاکستان کا کہنا ہے کہ انہیں اس کا پتہ ہی چل سکا کہ کب امریکی طیارے ہمارے انتہائی اہم ترین شہر کی جاسوسی کرتے رہے۔ اس کی ایک ممکنہ وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہ طیارے پاکستان کے شمسی ائیر بیس سے ہی اڑے ہوں۔

alt
روس اور نیٹو کے مابین برسلز میں میزائل دفاعی نظام یا یورپ میں میزائل شیلڈ سے متعلق جاری مذاکرات میں کوئی خاطرخواہ پیش رفت نہیں ہو سکی۔

روسی وزیرِخارجہ سرگئی لاؤروو کا کہنا ہے کہ اگر روس کے عسکری مفادات کا خیال نہیں رکھا گیا تو روس کو جوابی دفاعی اقدامات اُٹھانے پڑیں گے۔
انھوں نے مزید کہا ’ہمیں اس بات کا احساس ہے کہ نیٹو اپنے اراکین کے دفاع کی ذمہ داری کسی ایسے ملک کو نہیں سونپ سکتا جو نیٹو اتحاد کا حصہ نہیں۔ مگر نیٹو کو اس بات کا احترام کرنا ہوگا کہ ہمیں بھی اپنے دفاع کا مکمل حق ہے۔‘

 روسی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ’ہمیں معلوم ہے کہ یہ میزائل دفاعی نظام روس کے بہت سارے حصوں کی بھی نگرانی کر سکتا ہے اور اس بارے میں ہمیں سنگین تحفظات ہیں۔ ہماری یقین دہانی کے لیے الفاظ کافی نہیں بلکہ ہمیں قانونی ضمانتیں درکار ہیں
نیٹو کے سیکریٹری جنرل فوغ راسمیوسن کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس معاملے پر کوئی اتفاقِ رائے نہیں ہو سکا مگر پھر بھی یہ اہم ہے کہ ہم بات چیت کا عمل جاری رکھیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ روسی صدر دمتری میدوی ایدف نے اس معاملے پر روس کا موقف واضح کیا تھا۔

اُن کا کہنا تھا کہ اگرچہ روس اس معاملے پر بات چیت کرنے کو تیار ہے تاہم اگر روسی تحفظات کا خیال نہ رکھا گیا تو ہم مناسب جوابی اقدامات کریں گے جس میں روسی افواج کو اس میزائل دفاعی نظام کو پار کرنے کے قابل میزائلوں سے لیس کرنا شامل ہے۔ نیٹو اور برطانوی حکومت نے اس بیان پر مایوسی ظاہر کی تھی۔

نیٹو یورپ اور ترکی میں میزائل کے خلاف دفاعی نظام نصب کرنا چاہتا ہے۔ نیٹو کا موقف ہے کہ اس نظام کا مقصد ایران اور دوسری باغی حکومتوں کے خلاف حفاظت ہے جبکہ روس کا کہنا ہے کہ اس نظام کا اصل ہدف خود روس ہے۔ امریکہ نے میزائل کا دفاعی نظام کا منصوبہ سابق صدر جارج بش کے دور میں بنایا تھا اور اس منصوبے کی وجہ سے روس اور امریکہ کے درمیان تعلقات کئی بار کشیدہ ہوئے ہیں۔
امریکی صدر براک اوباما نے اس منصوبے کے سب سے زیادہ متنازع حصوں کو حذف کردیا ہے تاہم روس کا کہنا ہے کہ اس کی تشویش کو اب تک دور نہیں کیا گیا ہے۔

روس نے میزائل کے مشترکہ دفاعی نظام میں دلچسپی ظاہر کی جبکہ نیٹو کا کہنا ہے کہ روس اور نیٹو کے بیچ موجود ایک دوسرے کے خلاف طاقت نہ استعمال کرنے کا معاہدہ کافی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ روس اس نظام سے خود کو لاحق خطرے کو بڑھا چڑھا کر بیان کر رہا ہے تاکہ وہ مذاکرات میں اپنے لیے بہتر مراعات حاصل کر سکے۔ امریکی اور نیٹو حکام کا کہنا ہے کہ روس میں مغرب کے خلاف آوازیں روسی عوام کے لیے ہیں جو حال ہی میں انتخابات میں شرکت کر رہے ہیں۔


 ایران نے تین خلائی سیٹلائٹ خلاء میں بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ایران کی خلائی ایجنسی کے سربراہ حامد خفیلی نے اعلان کیا ہے کہ کاشغر فائیو، فجر اور نوید نامی خلائی سیارے مکمل طور پر اندرون ملک تیار کردہ ہیں۔ ان کو جلد تیار کر کے خلاء میں روانہ کیا جائے گا۔ گفتگو میں انہوں نے مزید تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایران نے خلائی تحقیق میں بڑی ترقی کی ہے اور ایران ان آٹھ ممالک میں شامل ہے جنہوں نے خلائی ٹیکنالوجی، ڈیزائن پیداوار اور انہیں خلاء میں بھیجنے کی صلاحیت حاصل کی ہے۔


alt

سعودی عرب کی پولیس آمر بالمعروف نے جدہ کے ایک بنگلے پر چھاپہ مارکر 20 کی تعداد میں ایسی ائیرہوسٹسوں کوبمع  ایک دلال کےگرفتار کرلیا جو جسم فروشی کے دھندے میں ملوث تھیں ۔ اس نیٹ ورک کا انکشاف ایک خفیہ اطلاع کے ذریعے ہوا۔آمربالمعروف نے خفیہ کاروائی کے دوران اس ناپاک حرکت  کے ڈورے ہلانے والے ایجنٹ تک رسائی حاصل کرکے سارے منصوبے کوبے نقاب کردیا۔ سعودی جریدے "سبق" کی رپورٹ کے مطابق سعودی پولیس کو4 ماہ قبل یہ خبر موصول ہوئی تھی کہ جدہ کے ایک محلہ حی الروضہ میں کچھ مشکوک سرگرمیاں جاری ہیں ،جس کا کھوج لگا کر بالاخر جدہ پولیس نے فحاشی کا نیٹ ورک چلانے والے دلال سے متعلق پوری معلومات حاصل کرکے اسکو گرفتار کرلیا۔
واقعے میں ملوث ایجنٹ انتہائی محتاط رہ کرسارے معاملات ٹیلی فون پر طے کرتاتھا۔ اس منصوبے کا انکشاف اس وقت ہوا جب  ساحل کے ایک ہوٹل سے ایک لڑکے کے ساتھ ایک ائیرہوسٹس لڑکی کوگرفتار کرلیا گیا جہاں پولیس تحقیقات کے دوراں لڑکی نے مذکورہ ایجنٹ سے متعلق پوری تفصیلات بتا دیں  ۔ائیرہوسٹس کے مطابق ایجنٹ  کو ایک رات کے  3 ہزار ریال ملتے تھے لڑکیوں کومقررہ مقامات تک پہنچانے کے لئے وہ ڈرائیور کو2سو ریال دیتا تھا جو لڑکیوں کو ہوٹلوں اور فلیٹوں میں پہنچانے کا کام انجام دیا کرتا تھا۔ ایجنٹ لڑکیوں اور عیاش مردوں  کے  ساتھ سارے معاملات بذریعہ فون طے کرتا تھا  بعدزاں   لڑکیاں اپنی رضامندی سے طے شدہ مقامات پرپہنچ جاتی تھیں جہاں انہیں رنگین راتیں گزارنے کامعاوضہ ملتا تھا۔
واضح رہے کہ تمام ائیرہوسٹس کا تعلق عرب ممالک سے ہے جو ایک ائیرلائن کمپنی سے وابستہ ہیں اور اس وقت پولیس ان سے تفتیش کررہی ہے  جس کے نتیجے میں مزید  انکشافات کی توقع ہے ۔


ایران نے اپنی مشرقی فضائی حدود کی خلاف ورزی پر امریکی جاسوس طیارہ مار گرایا۔ ایرانی سرکاری ٹی وی کے مطابق ایرانی فضائیہ نے بغیر پائلٹ پرواز کرنیوالے اسٹیلتھ جاسوس طیارہ بلوچستان کی سرحد کے قریب مشرقی سرحد پرقم شہر میں گرایا۔طیارے کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ طیارہ جاسوسی کے مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے، اس میں ہتھیار نصب نہیں ہوتے۔طیارے کے ملبے کو ایرانی سیکورٹی فورسز نے اپنے قبضے میں لے کر اسکا تجزیہ شروع کردیا ہے۔ایرانی ٹیلی ویژن کیمطابق ایرانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کا جواب ایرانی سرحد تک محدود نہیں رہیگا۔اس سے پہلے جولائی میں بھی ایران نے امریکا کا ایک جاسوس طیارہ ایٹمی تنصیبات کے قریب مارگرایا تھا۔


------------------------------------------ 

------------------------------------------ 

------------------------------------------ 

------------------------------------------ 

------------------------------------------ 

------------------------------------------ 

------------------------------------------ 

------------------------------------------ 

------------------------------------------ 

Traffic WebsiteCasino onlineTitan PokerONLINE DATING SITESJACKPOT CITY CASINO